کچھ عرصہ پہلے میں نے دجال کی پوسٹ کی تھی۔ تو آپ میں سے کچھ دوستوں نے سوال کیا تھا کہ دجال کیا اب بھی زندہ ہے تو میں نے اس وقت بھی جواب دیا تھا کہ ہاں کسی جزیرے میں قید ہے۔ تو آج میری نظر سے مشکوٰۃ شریف کی ایک عجیب و غریب حدیث نبوی ﷺ گزری ۔ سوچا آپ کے ساتھ بھی اس کو شئیر کردوں۔ جس میں عجائبت کے بے شمار پہلو ہیں۔ جس سے آپ کو معلوم ہوگا ۔ کہ واقعی دجال اور دابۃ الارض زندہ ہیں۔
دجال کا تو ذکر ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دوستوں کو دابۃ الارض کے بارے میں نہ پتہ ہو ۔تو پیارے بھائیوں اس کے بارے میں کچھ عرض کردوں۔ دَا بَّۃُ الارض ایک عجیب شکل کا جانور ہے جو قرب قیامت کوہِ صفا سے ظاہر ہو کر تمام شہروں میں نہایت تیزرفتار ی سے پھرے گا۔ فصاحت کے ساتھ کلام کریگا۔ ہر شخص پر ایک نشانی لگائے گا۔ ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسیٰ علیہ السلام سے ایک نورانی خط کھینچے گا ۔ کافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری (انگوٹھی) سے کالی مُہر کریگا۔ (واللہ اعلم)
مسلم شریف کے حوالے سے مشکوٰۃ شریف کی حدیث نمبر 326 میں منقول ہے کہ۔۔۔۔
جناب فاطمہ بنت قیس ۱؎ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلانچی کو سنا جو اعلان کررہا تھا کہ نماز تیار ہے تو میں مسجد کی طرف گئی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی ۲؎ تو جب حضور نے نماز پوری کرلی تو منبر پر جلوہ افروز ہوئے حالانکہ حضور ہنس رہے تھے۳؎ فرمایا ہرشخص اپنی نماز کی جگہ رہے۴؎ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ ہم نے تم کو کیوں جمع فرمایا ہے سب نے عرض کی واللہ اعلم و رسولہ اعلم یعنی اللہ رسول ہی جانیں،فرمایا واللہ ہم نے تم کو بشارت دینے اور ڈرانے کے لیے جمع نہیں فرمایا ۵؎ لیکن اس لیے جمع فرمایا ہے کہ تمیم داری ایک عیسائی آدمی تھا وہ آیا اور مسلمان ہوگیا ۶؎ اور اس نے ہم کو ایسی خبر دی جو اس کے موافق ہے جو ہم تم کو مسیح دجال کے متعلق بتایا کرتے تھے۷؎ اس نے ہم کو خبر دی کہ وہ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمیوں کے سامنے دریائی جہاز میں سوار ہوئے ۸؎ تو انہیں ایک ماہ تک موج سمندر میں کھلاتی رہی ۹؎ پھر وہ مغرب کی طرف جزیرہ کے قریب پہنچے پھر وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھے جزیرہ میں داخل ہوئے۱۰؎ تو انہیں ایک بہت زیادہ اور موٹے بالوں والا جانور ملا ۱۱؎ کہ بالوں کی زیادتی کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اگلا اورپچھلا حصہ کون سا ہے ۱۲؎ ان لوگوں نے کہا تیری خرابی ہو تو کون ہے وہ بولا میں جاسوس ہوں۱۳؎ تم لوگ کلیسہ میں اس شخص کے پاس جاؤ کہ وہ تمہاری خبر کا مشتاق ہے،کہا کہ جب اس نے ہم سے ایک آدمی کا نام لیا تو ہم اس سے بولے کہ وہ جناتنی ہے۱۴؎ کہا کہ پھر ہم تیز چلے حتی کہ کلیسہ میں داخل ہوگئے ۱۵؎ تو اس میں ایک بہت بھاری بھر کم آدمی تھا ہم نے اتنا بڑا اورایسا مضبوط بندھا ہوا آدمی نہ دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے ۱۶؎ اس کو گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیری خرابی ہو تو ہے کون وہ بولا میری خبر پر تم نے قابو پالیا تم بتاؤ تم کون لوگ ہو۱۷؎ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے تو ہم کو دریا ایک ماہ تک کھلاتا رہا ۱۸؎ پھر ہم اس جزیرہ میں داخل ہوئے تو ہم کو بڑے بالوں والا جانور ملا وہ بولا میں جاسوس ہوں اس کلیسہ کی طرف جاؤ تو ہم دوڑتے ہوئے تیری طرف آگئے وہ بولا کہ مجھے بیسان کے باغ کی خبر دو کیا وہ پھل دے رہا ہے ۱۹؎ ہم نے کہا ہاں وہ بولا قریب ہے کہ پھل نہ دے گا ۲۰؎ بولا مجھے بحیرہ طبریہ کے متعلق بتاؤ کیا اس میں پانی ہے ۲۱؎ ہم نے کہا کہ وہ تو بہت پانی والا ہے بولا قریب ہے کہ اس کا پانی خشک ہوجاوے۲۲؎ بولا مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتاؤ کیا اس چشمہ میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے کھیتی باڑی کررہے ہیں۲۳؎ ہم نے کہا ہاں اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کررہے ہیں۲۴؎ وہ بولا مجھے ناخواندہ لوگوں کے نبی کے متعلق خبر دو کہ انہوں نے کہا کیا ۲۵؎ ہم نے کہا وہ مکہ سے تشریف لے گئے اور مدینہ قیام پذیر ہوئے بولا کیا عرب نے ان سے جنگ کی ہم نے کہا ں ہاں بولا ان کے ساتھی نبی نے کیا کیا ہم نے اسے بتایا کہ وہ متصل عرب پر غالب آگئے ہیں اور عرب نے ان کی اطاعت کرلی ہے ۲۶؎ بولا عرب کے لیے ان کی اطاعت کرنا بہتر ہے ۲۷؎ اور میں تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں ۲۸؎ قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جاوے تو میں نکلوں تو ساری زمین میں چلوں کوئی بستی نہ چھوڑوں مگر وہاں چالیس دن میں اتروں سواء مکہ اور مدینہ کے ۲۹؎ کہ وہ دونوں بستیاں مجھ پر حرام ہیں جب کبھی میں ان میں سے کسی میں داخل ہوتا جاؤں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آوے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی جو مجھے وہاں سے روک دے گا اور اس کے ہر راستہ پر فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہوں گی۳۰؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عصامنبر پر مارا اور فرمایا یہ ہے طیبہ یعنی مدینہ منورہ، بولو کیا ہم نے تم کو یہ خبریں دی تھیں لوگوں نے کہا ہاں ۳۱؎ آگاہ رہو کہ وہ شام یا یمن کے جنگل میں ہے نہیں بلکہ مشرق کی طرف وہ ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا ۳۲؎
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ سے اس حدیث کی شرح بمطابق نمبروں کے۔
۱؎ آپ قرشیہ فہریہ ہیں یعنی فہر ابن مالک ابن نفر کی اولاد سے ہیں،ضحاک ابن قیس کی بہن ہیں،مہاجرین اولین میں سے ہیں،صاحب جمال و عقل تھیں،پہلے عمرو ابن مغیرہ کے نکاح میں تھیں ان سے طلاق کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ ابن زید سے نکاح کردیا۔
۲؎ جب کبھی کوئی اہم مشورہ یا ضروری کام ہوتا تو نماز کے بعد مسجد میں کیا جاتا تھا اس موقع پر اعلان ہوتا تھا سب لوگ فلاں نماز مسجد نبوی میں ادا کریں،لوگ اہتمام سے آجاتے تھے یہ ہی مراد یہاں ہے لہذا حدیث ظاہر ہے۔
۳؎ یہاں ہنسنا بمعنی تبسم فرمانا ہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم ساری عمر شریف میں کبھی ٹھٹھا مار کر نہ ہنسے ہاں تبسم بہت فرماتے تھے۔
۴؎ یعنی کوئی صاحب نہ ہٹے نہ اٹھے ہمارا کلام وہاں ہی بیٹھے سنے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے۔
۵؎ یعنی نہ تو کوئی رحمت کی آیت نازل ہوئی ہے نہ عذاب کی آیت جسے سنانے کے لیے میں نے تم لوگوں کو جمع کیا ہو، نہ مال غنیمت کہیں سے آیا ہے جو تم میں تقسیم کرنا ہے،نہ دشمن کے مقابلہ کے لیے تم کو کہیں بھیجنا ہے آج تو ایک نئی بات ہی سنانا ہے۔
۶؎ حضرت تمیم ابن اوس مشہور صحابی ہیں،قبیلہ بنی عبدالدار سے ہیں،دار ایک بت کا نام تھا اس نسبت سے ان کے مورث اعلٰی کا نام عبدالدار تھا،بڑے عابد و زاہد شب زندہ دار تھے،اولًا مدینہ منورہ میں رہے،حضرت عثمان کی شہادت کے بعد شام میں قیام پذیر ہوئے وہاں ہی آپ کا مزار ہے،مسجد نبوی شریف میں سب سے پہلے چراغ جلانے والے بلکہ چراغ کرنے والے آپ ہی ہیں،اولًا آپ عیسائی تھے پھر یہ واقعہ دیکھا جو یہاں مذکور ہے،حضور کے ہاتھ پر ایمان لائے۔ (اکمال)آپ ۹ھ میں ایمان لائے،بڑے پایہ کے صحابی ہیں رضی اللہ عنہ۔
۷؎ یعنی ہماری خبر کی آنکھوں دیکھی تصدیق سن لو غالبًا حضرت تمیم داری اس مجمع میں موجود تھے حضور نے ان کی موجودگی میں یہ سب کچھ سنایا۔
۸؎ سفینہ تبریہ یعنی ریت کا جہاز اونٹ کو کہتے ہیں اور سفینہ بحریہ یعنی سمندری جہاز بڑی کشتی کو،نیز چھوٹی کشتی کو جو نہروں وغیرہ میں چلے زورق کہتے ہیں،بڑی کشتی کو سفینہ بحریہ،لخم یمن کا ایک قبیلہ ہے اور جذام ج کے پیش سے نجد کا ایک قبیلہ ہے۔(اشعہ،مرقات)
۹؎ بے فائدہ کام کو لعب کہتے ہیں،چونکہ دریامیں اتنے روز تک مارے مارے پھرنا بے فائدہ تھا اس لیے اسے لعب فرمایا۔
۱۰؎ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کشتیوں کے اندر اس کے ساتھ چھوٹی کشتیاں رہتی تھیں،بڑی کشتی گہرے پانی میں رہتی تھی اور چھوٹی کشتی سے کنارہ تک آتے تھے۔اقرب جمع قارب کی بمعنی چھوٹی کشتی یہ جمع شاذ ہے فاعل کی جمع افعل کے وزن پر نہیں آتی الا شاذًا۔خلاصہ یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے ایک ماہ کے بعد زمین دیکھی تو غنیمت سمجھ کر وہاں اترے اور چھوٹی کشتی کے ذریعہ کنارہ پر پہنچے۔
۱۱؎ اھلب بنا ہے ھلب سے بمعنی موٹے بال یا دم پر زیادہ بال ،یہاں پہلے معنی میں ہے یعنی اس جانور کے بال بہت تھے اور موٹے تھے ۔دابہ نر اور مادہ دونوں جانوروں کو کہا جاتا ہے،رب فرماتاہے:"وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا"۔
۱۲؎ یعنی اس کے سر سے دم تک بال ہی بال تھے پتہ نہ لگتا تھا کہ سر کدھر ہے اور دم کدھر ہے گویا عجیب الخلقت مخلوق تھی۔
۱۳؎ یعنی میرا کام ہے لوگوں کی خبریں دجال تک پہنچاؤں جو اس کلیسہ میں بندھا ہوا ہے۔سیدنا عبد اللہ ابن عمرو ابن عاص فرماتے ہیں کہ یہ جانور وہ ہی دابۃ الارض تھا جو قریب قیامت نمودار ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے"اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَآبَّۃً"۔
۱۴؎ یعنی ہم کو یہ خوف ہوا کہ شاید جناتی ہو اور ہم کو جس کے پاس بھیج رہی ہے وہ جن ہو ہم جنات میں پھنس نہ جائیں۔
۱۵؎ دیر بنا ہے دار سے اور دار بنا ہے دور سے بمعنی گول عمارت،چونکہ گرجا اکثر گول ہوتا ہے اس لیے اسے دیر کہتے ہیں۔غالبًا اس وقت دجال یہودیوں میں سے ہے جو ایک گرجے میں بندھا ہوا ہے جیساکہ آگے معلوم ہوگا۔
۱۶؎ یعنی اس سے پہلے ہم نے نہ تو اتنا قد آور آدمی دیکھا نہ ایسی مضبوط زنجیر دیکھی جس میں وہ بندھا تھا وہ بھی ہیبت ناک اس کی قید بھی ہیبت ناک۔
۱۷؎ یعنی تم میرے پاس آگئے ہو تم میری خبریں سن ہی لو گے اور میں تم کو سب کچھ اپنے متعلق بتا ہی دوں گا پہلے تم بتاؤ کہ تم لوگ کون ہو۔خیال رہے کہ یہ دجال ان لوگوں کے حالات پوچھنا چاہتا تھا نہ کہ ان کی حقیقت کیوں کہ اسے خبرتھی کہ یہ لوگ انسان ہیں اس لیے اس نے ما کہا من نہ کہا۔(اشعہ،مرقات)
۱۸؎ یعنی ہم اہل عرب ہیں تجارت وغیرہ کی غرض سے دریائی سفر کررہے تھے کہ سمندر کی موجوں میں ہم پھنس گئے۔
۱۹؎ خیال رہے کہ بیسان دو بستیوں کے نام ہیں: ایک حجاز میں ہے،دوسری فلسطین نہراردن کے قریب،یہاں وہ اس دوسرے بیسان کے متعلق پوچھ رہا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے آزاد تھا اور اس نے یہ تمام مقامات دیکھے تھے پھر یہاں قید کیا گیا۔(مرقات و اشعہ)
۲۰؎ یعنی ابھی قیامت قریب نہیں دور ہے کیونکہ علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے کہ یہ باغ خشک ہوجائے گا اس کے پھل ختم ہوجائیں گے۔
۲۱؎ بحیرہ طبریہ ایک نہر ہے اور طبریہ ایک قصبہ کا نام ہے جو نہر اردن کے قریب واقع ہے،امام طبرانی اسی قصبہ کے رہنے والے ہیں طبرانی اسی طبریہ کی طرف نسبت ہے۔
۲۲؎ یعنی علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ یہ بحیریہ طبریہ خشک ہوجائے گا ابھی قیامت دور ہے۔
۲۳؎ زغر بروزن زفر ایک شہر ہے شام کے علاقہ میں،زغر ایک عورت کا نام تھا جس نے یہ شہر آباد کیا تھا،اس کے نام پر اس شہر کا نام زغر ہوا،یہاں ایک مشہورچشمہ ہے اس کا نام عین زغر ہے وہ اس کے متعلق پوچھ رہا ہے۔
۲۴؎ یہاں دجال نے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا مگر مطلب وہ ہی ہے کہ عنقریب یہ چشمہ بھی خشک ہوجائے گا۔ (مرقات)اور قریب قیامت اس کے پانی سے کھیتی باڑی بھی نہیں ہوسکے گی جب پانی ہی نہ ہوگا تو اس کے پانی سے کھیتی کے کیا معنی۔
۲۵؎ بعض یہود کا عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نبی تو ہیں مگر ہمارے نبی نہیں کہ ہم تو اہل علم ہیں،آپ عرب ناخواندہ لوگوں کے نبی ہیں اس لحاظ سے وہ حضور کو نبی الامیّین کہہ رہا ہے۔(اشعہ،مرقات)معلوم ہوا کہ دجال یہود قوم سے ہے۔
۲۶؎ یعنی جہادوں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم غالب آچکے ہیں اور مدینہ منورہ کے آس پاس کے علاقے انہوں نے فتح کرلیے ہیں اور ان علاقوں کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مطیع ہوچکے،جو واقعات تھے وہ صحیح صحیح بیان کردیئے۔
۲۷؎ سبحان اللہ! دشمن اور بے دین کے منہ سے حضور کی حقانیت کی گواہی نکل رہی ہے،چونکہ ابھی وہ دجال بن کر دنیا کے سامنے آیا نہیں ہے اس لیے یہ سچی بات کہہ رہا ہے جب دجال بن کر آوے گا تب وہ خدا تعالٰی کو بھی نہ مانے گا نبوت تو بہت دور ہے یعنی ان لوگوں کے لیے دین و دنیا کی بہتری اس میں ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرلیں۔شاید یہ ہی سن کر تمیم داری مدینہ منورہ میں آکر مسلمان ہوگئے،بعض صحابہ کو کفار کے ذریعہ ایمان ملا،تمیم داری کو دجال کے ذریعہ،ابوسفیان کو شاہ روم ہرقل کے ذریعہ۔
۲۸؎ غالبًا یہ مسیح بنا ہے سباحہ سے بمعنی زمین میں چلنا پھرنا سیرکرنا،چونکہ یہ مردود تھوڑے دنوں میں تمام زمین میں چکر لگالے گا اس لیے اسے مسیح کہا گیا۔مسیح کے اور بہت معنی ہیں۔دجال بنا ہے دجل سے بمعنی فریب دینا،اس کا نام کچھ اور ہے لقب دجال ہے،اس وقت وہ اپنی حقیقت خود بیان کررہا ہے۔
۲۹؎ یہ ہے اس کافر دجال کے علم کا حال کہ آئندہ ہونے والے واقعات تفصیلًا ایک ایک بتارہا ہے،اپنا مقام اور ساتھ ہی حرمین طیبین کی شان بیان کررہا ہے۔خیال رہے کہ مدینہ منورہ کے نام ایک سو سے زیادہ ہیں ان میں سے بہت نام جذب القلوب شریف کے اول میں لکھے ہیں۔یہاں دجال نے اسے طیبہ کہا،طیبہ کے معنی ہیں پاک و صاف کی ہوئی بستی،چونکہ دجال سے وہ بستی محفوظ رہیگی اس کی خباثت وہاں نہ پہنچ سکے گی اس لیے طیبہ کہا۔خیال ہے کہ دجال کے سواء دیگر کفار و مشرکین و منافقین مدینہ منورہ میں جا تو سکتے ہیں مگر رہ نہیں سکتے زندگی میں یا مرے بعد وہاں سے نکال دیئے جائیں گے،یہ زمین مقدس بھٹی ہے جو لوہے کا میل نکال دیتی ہے مگر دجال وہاں جا بھی نہ سکے گا۔
۳۰؎ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان فرشتوں میں داخل ہوں گے ان کی تشریف آوری زمین پر بند نہ ہوئی،ہاں وحی لانا بند ہوگیا کہ حضور انور کے بعد کوئی نبی نہیں۔خیال رہے کہ دجال یہ سب کچھ جانتے ہوئے حرمین طیبین میں داخلہ کی کوشش کرے گا جیسے شیطان لاحول کا کوڑا جانتے ہوئے بلکہ یہ کوڑا کھاتے ہوئے بھی ہر ایک کے پاس پہنچنے کی کو شش کرتا ہے،مکھیاں مار کھاتے ہوئے بھی ہر جگہ پہنچتی ہیں لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہے تو پھر وہاں جانے کی کوشش کیوں کرے گا۔فطرت نہیں بدلتی یہ اس کی فطری چیز ہوگی،شیطان جانتا ہے کہ میں حضرات انبیاءاولیاءکو بہکا نہیں سکتا"اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیۡنَ" مگر پھر کوشش میں رہتا ہے۔
۳۱؎ حضور انور کا یہ عمل و فرمان انتہائی خوشی سے ہے۔خوشی ایک تو اس کی ہے کہ ہمارے فرمان عالی کی تصدیق ایک غیرمسلم سے ہوئی بلکہ وہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنی۔دوسرے یہ کہ ہمارے مدینہ کی شان عالی یہ ہےاللہ تعالٰی ہم سب کو مدینہ طیبہ کی زیارت نصیب فرمائے۔
۳۲؎ اس فرمان عالی کی بہت شرحیں کی گئی ہیں۔بہترین شرح یہ ہے کہ ما ھو میں ما زائدہ ہے نافیہ نہیں۔مطلب یہ ہے کہ دجال کبھی بحر شام میں مقید رہتاہے اور کبھی بحر یمن کی جیل میں رکھا جاتا ہے،آج کل ان دونوں جیلوں میں نہیں بلکہ مدینہ منورہ سے مشرق جانب میں ہے،یا یہ مطلب ہے کہ وہ شامی یا یمنی جیلوں میں مقید رہتا ہے مگر قریب خروج مدینہ منورہ میں ان طرفوں سے نہ آئے گا بلکہ مشرق کی طرف سے آوے گا۔خیال رہے کہ مدینہ منورہ سے شام جانب شمال ہے اور یمن جانب جنوب اور نجد جانب مشرق لہذا دجال اس زمانہ میں نجد کی طرف سے آئے گا، یہ ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ۔
دجال کا تو ذکر ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دوستوں کو دابۃ الارض کے بارے میں نہ پتہ ہو ۔تو پیارے بھائیوں اس کے بارے میں کچھ عرض کردوں۔ دَا بَّۃُ الارض ایک عجیب شکل کا جانور ہے جو قرب قیامت کوہِ صفا سے ظاہر ہو کر تمام شہروں میں نہایت تیزرفتار ی سے پھرے گا۔ فصاحت کے ساتھ کلام کریگا۔ ہر شخص پر ایک نشانی لگائے گا۔ ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسیٰ علیہ السلام سے ایک نورانی خط کھینچے گا ۔ کافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری (انگوٹھی) سے کالی مُہر کریگا۔ (واللہ اعلم)
مسلم شریف کے حوالے سے مشکوٰۃ شریف کی حدیث نمبر 326 میں منقول ہے کہ۔۔۔۔
جناب فاطمہ بنت قیس ۱؎ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلانچی کو سنا جو اعلان کررہا تھا کہ نماز تیار ہے تو میں مسجد کی طرف گئی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی ۲؎ تو جب حضور نے نماز پوری کرلی تو منبر پر جلوہ افروز ہوئے حالانکہ حضور ہنس رہے تھے۳؎ فرمایا ہرشخص اپنی نماز کی جگہ رہے۴؎ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ ہم نے تم کو کیوں جمع فرمایا ہے سب نے عرض کی واللہ اعلم و رسولہ اعلم یعنی اللہ رسول ہی جانیں،فرمایا واللہ ہم نے تم کو بشارت دینے اور ڈرانے کے لیے جمع نہیں فرمایا ۵؎ لیکن اس لیے جمع فرمایا ہے کہ تمیم داری ایک عیسائی آدمی تھا وہ آیا اور مسلمان ہوگیا ۶؎ اور اس نے ہم کو ایسی خبر دی جو اس کے موافق ہے جو ہم تم کو مسیح دجال کے متعلق بتایا کرتے تھے۷؎ اس نے ہم کو خبر دی کہ وہ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمیوں کے سامنے دریائی جہاز میں سوار ہوئے ۸؎ تو انہیں ایک ماہ تک موج سمندر میں کھلاتی رہی ۹؎ پھر وہ مغرب کی طرف جزیرہ کے قریب پہنچے پھر وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھے جزیرہ میں داخل ہوئے۱۰؎ تو انہیں ایک بہت زیادہ اور موٹے بالوں والا جانور ملا ۱۱؎ کہ بالوں کی زیادتی کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اگلا اورپچھلا حصہ کون سا ہے ۱۲؎ ان لوگوں نے کہا تیری خرابی ہو تو کون ہے وہ بولا میں جاسوس ہوں۱۳؎ تم لوگ کلیسہ میں اس شخص کے پاس جاؤ کہ وہ تمہاری خبر کا مشتاق ہے،کہا کہ جب اس نے ہم سے ایک آدمی کا نام لیا تو ہم اس سے بولے کہ وہ جناتنی ہے۱۴؎ کہا کہ پھر ہم تیز چلے حتی کہ کلیسہ میں داخل ہوگئے ۱۵؎ تو اس میں ایک بہت بھاری بھر کم آدمی تھا ہم نے اتنا بڑا اورایسا مضبوط بندھا ہوا آدمی نہ دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے ۱۶؎ اس کو گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیری خرابی ہو تو ہے کون وہ بولا میری خبر پر تم نے قابو پالیا تم بتاؤ تم کون لوگ ہو۱۷؎ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے تو ہم کو دریا ایک ماہ تک کھلاتا رہا ۱۸؎ پھر ہم اس جزیرہ میں داخل ہوئے تو ہم کو بڑے بالوں والا جانور ملا وہ بولا میں جاسوس ہوں اس کلیسہ کی طرف جاؤ تو ہم دوڑتے ہوئے تیری طرف آگئے وہ بولا کہ مجھے بیسان کے باغ کی خبر دو کیا وہ پھل دے رہا ہے ۱۹؎ ہم نے کہا ہاں وہ بولا قریب ہے کہ پھل نہ دے گا ۲۰؎ بولا مجھے بحیرہ طبریہ کے متعلق بتاؤ کیا اس میں پانی ہے ۲۱؎ ہم نے کہا کہ وہ تو بہت پانی والا ہے بولا قریب ہے کہ اس کا پانی خشک ہوجاوے۲۲؎ بولا مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتاؤ کیا اس چشمہ میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے کھیتی باڑی کررہے ہیں۲۳؎ ہم نے کہا ہاں اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کررہے ہیں۲۴؎ وہ بولا مجھے ناخواندہ لوگوں کے نبی کے متعلق خبر دو کہ انہوں نے کہا کیا ۲۵؎ ہم نے کہا وہ مکہ سے تشریف لے گئے اور مدینہ قیام پذیر ہوئے بولا کیا عرب نے ان سے جنگ کی ہم نے کہا ں ہاں بولا ان کے ساتھی نبی نے کیا کیا ہم نے اسے بتایا کہ وہ متصل عرب پر غالب آگئے ہیں اور عرب نے ان کی اطاعت کرلی ہے ۲۶؎ بولا عرب کے لیے ان کی اطاعت کرنا بہتر ہے ۲۷؎ اور میں تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں ۲۸؎ قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جاوے تو میں نکلوں تو ساری زمین میں چلوں کوئی بستی نہ چھوڑوں مگر وہاں چالیس دن میں اتروں سواء مکہ اور مدینہ کے ۲۹؎ کہ وہ دونوں بستیاں مجھ پر حرام ہیں جب کبھی میں ان میں سے کسی میں داخل ہوتا جاؤں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آوے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی جو مجھے وہاں سے روک دے گا اور اس کے ہر راستہ پر فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہوں گی۳۰؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عصامنبر پر مارا اور فرمایا یہ ہے طیبہ یعنی مدینہ منورہ، بولو کیا ہم نے تم کو یہ خبریں دی تھیں لوگوں نے کہا ہاں ۳۱؎ آگاہ رہو کہ وہ شام یا یمن کے جنگل میں ہے نہیں بلکہ مشرق کی طرف وہ ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا ۳۲؎
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ سے اس حدیث کی شرح بمطابق نمبروں کے۔
۱؎ آپ قرشیہ فہریہ ہیں یعنی فہر ابن مالک ابن نفر کی اولاد سے ہیں،ضحاک ابن قیس کی بہن ہیں،مہاجرین اولین میں سے ہیں،صاحب جمال و عقل تھیں،پہلے عمرو ابن مغیرہ کے نکاح میں تھیں ان سے طلاق کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ ابن زید سے نکاح کردیا۔
۲؎ جب کبھی کوئی اہم مشورہ یا ضروری کام ہوتا تو نماز کے بعد مسجد میں کیا جاتا تھا اس موقع پر اعلان ہوتا تھا سب لوگ فلاں نماز مسجد نبوی میں ادا کریں،لوگ اہتمام سے آجاتے تھے یہ ہی مراد یہاں ہے لہذا حدیث ظاہر ہے۔
۳؎ یہاں ہنسنا بمعنی تبسم فرمانا ہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم ساری عمر شریف میں کبھی ٹھٹھا مار کر نہ ہنسے ہاں تبسم بہت فرماتے تھے۔
۴؎ یعنی کوئی صاحب نہ ہٹے نہ اٹھے ہمارا کلام وہاں ہی بیٹھے سنے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے۔
۵؎ یعنی نہ تو کوئی رحمت کی آیت نازل ہوئی ہے نہ عذاب کی آیت جسے سنانے کے لیے میں نے تم لوگوں کو جمع کیا ہو، نہ مال غنیمت کہیں سے آیا ہے جو تم میں تقسیم کرنا ہے،نہ دشمن کے مقابلہ کے لیے تم کو کہیں بھیجنا ہے آج تو ایک نئی بات ہی سنانا ہے۔
۶؎ حضرت تمیم ابن اوس مشہور صحابی ہیں،قبیلہ بنی عبدالدار سے ہیں،دار ایک بت کا نام تھا اس نسبت سے ان کے مورث اعلٰی کا نام عبدالدار تھا،بڑے عابد و زاہد شب زندہ دار تھے،اولًا مدینہ منورہ میں رہے،حضرت عثمان کی شہادت کے بعد شام میں قیام پذیر ہوئے وہاں ہی آپ کا مزار ہے،مسجد نبوی شریف میں سب سے پہلے چراغ جلانے والے بلکہ چراغ کرنے والے آپ ہی ہیں،اولًا آپ عیسائی تھے پھر یہ واقعہ دیکھا جو یہاں مذکور ہے،حضور کے ہاتھ پر ایمان لائے۔ (اکمال)آپ ۹ھ میں ایمان لائے،بڑے پایہ کے صحابی ہیں رضی اللہ عنہ۔
۷؎ یعنی ہماری خبر کی آنکھوں دیکھی تصدیق سن لو غالبًا حضرت تمیم داری اس مجمع میں موجود تھے حضور نے ان کی موجودگی میں یہ سب کچھ سنایا۔
۸؎ سفینہ تبریہ یعنی ریت کا جہاز اونٹ کو کہتے ہیں اور سفینہ بحریہ یعنی سمندری جہاز بڑی کشتی کو،نیز چھوٹی کشتی کو جو نہروں وغیرہ میں چلے زورق کہتے ہیں،بڑی کشتی کو سفینہ بحریہ،لخم یمن کا ایک قبیلہ ہے اور جذام ج کے پیش سے نجد کا ایک قبیلہ ہے۔(اشعہ،مرقات)
۹؎ بے فائدہ کام کو لعب کہتے ہیں،چونکہ دریامیں اتنے روز تک مارے مارے پھرنا بے فائدہ تھا اس لیے اسے لعب فرمایا۔
۱۰؎ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کشتیوں کے اندر اس کے ساتھ چھوٹی کشتیاں رہتی تھیں،بڑی کشتی گہرے پانی میں رہتی تھی اور چھوٹی کشتی سے کنارہ تک آتے تھے۔اقرب جمع قارب کی بمعنی چھوٹی کشتی یہ جمع شاذ ہے فاعل کی جمع افعل کے وزن پر نہیں آتی الا شاذًا۔خلاصہ یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے ایک ماہ کے بعد زمین دیکھی تو غنیمت سمجھ کر وہاں اترے اور چھوٹی کشتی کے ذریعہ کنارہ پر پہنچے۔
۱۱؎ اھلب بنا ہے ھلب سے بمعنی موٹے بال یا دم پر زیادہ بال ،یہاں پہلے معنی میں ہے یعنی اس جانور کے بال بہت تھے اور موٹے تھے ۔دابہ نر اور مادہ دونوں جانوروں کو کہا جاتا ہے،رب فرماتاہے:"وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا"۔
۱۲؎ یعنی اس کے سر سے دم تک بال ہی بال تھے پتہ نہ لگتا تھا کہ سر کدھر ہے اور دم کدھر ہے گویا عجیب الخلقت مخلوق تھی۔
۱۳؎ یعنی میرا کام ہے لوگوں کی خبریں دجال تک پہنچاؤں جو اس کلیسہ میں بندھا ہوا ہے۔سیدنا عبد اللہ ابن عمرو ابن عاص فرماتے ہیں کہ یہ جانور وہ ہی دابۃ الارض تھا جو قریب قیامت نمودار ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے"اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَآبَّۃً"۔
۱۴؎ یعنی ہم کو یہ خوف ہوا کہ شاید جناتی ہو اور ہم کو جس کے پاس بھیج رہی ہے وہ جن ہو ہم جنات میں پھنس نہ جائیں۔
۱۵؎ دیر بنا ہے دار سے اور دار بنا ہے دور سے بمعنی گول عمارت،چونکہ گرجا اکثر گول ہوتا ہے اس لیے اسے دیر کہتے ہیں۔غالبًا اس وقت دجال یہودیوں میں سے ہے جو ایک گرجے میں بندھا ہوا ہے جیساکہ آگے معلوم ہوگا۔
۱۶؎ یعنی اس سے پہلے ہم نے نہ تو اتنا قد آور آدمی دیکھا نہ ایسی مضبوط زنجیر دیکھی جس میں وہ بندھا تھا وہ بھی ہیبت ناک اس کی قید بھی ہیبت ناک۔
۱۷؎ یعنی تم میرے پاس آگئے ہو تم میری خبریں سن ہی لو گے اور میں تم کو سب کچھ اپنے متعلق بتا ہی دوں گا پہلے تم بتاؤ کہ تم لوگ کون ہو۔خیال رہے کہ یہ دجال ان لوگوں کے حالات پوچھنا چاہتا تھا نہ کہ ان کی حقیقت کیوں کہ اسے خبرتھی کہ یہ لوگ انسان ہیں اس لیے اس نے ما کہا من نہ کہا۔(اشعہ،مرقات)
۱۸؎ یعنی ہم اہل عرب ہیں تجارت وغیرہ کی غرض سے دریائی سفر کررہے تھے کہ سمندر کی موجوں میں ہم پھنس گئے۔
۱۹؎ خیال رہے کہ بیسان دو بستیوں کے نام ہیں: ایک حجاز میں ہے،دوسری فلسطین نہراردن کے قریب،یہاں وہ اس دوسرے بیسان کے متعلق پوچھ رہا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے آزاد تھا اور اس نے یہ تمام مقامات دیکھے تھے پھر یہاں قید کیا گیا۔(مرقات و اشعہ)
۲۰؎ یعنی ابھی قیامت قریب نہیں دور ہے کیونکہ علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے کہ یہ باغ خشک ہوجائے گا اس کے پھل ختم ہوجائیں گے۔
۲۱؎ بحیرہ طبریہ ایک نہر ہے اور طبریہ ایک قصبہ کا نام ہے جو نہر اردن کے قریب واقع ہے،امام طبرانی اسی قصبہ کے رہنے والے ہیں طبرانی اسی طبریہ کی طرف نسبت ہے۔
۲۲؎ یعنی علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ یہ بحیریہ طبریہ خشک ہوجائے گا ابھی قیامت دور ہے۔
۲۳؎ زغر بروزن زفر ایک شہر ہے شام کے علاقہ میں،زغر ایک عورت کا نام تھا جس نے یہ شہر آباد کیا تھا،اس کے نام پر اس شہر کا نام زغر ہوا،یہاں ایک مشہورچشمہ ہے اس کا نام عین زغر ہے وہ اس کے متعلق پوچھ رہا ہے۔
۲۴؎ یہاں دجال نے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا مگر مطلب وہ ہی ہے کہ عنقریب یہ چشمہ بھی خشک ہوجائے گا۔ (مرقات)اور قریب قیامت اس کے پانی سے کھیتی باڑی بھی نہیں ہوسکے گی جب پانی ہی نہ ہوگا تو اس کے پانی سے کھیتی کے کیا معنی۔
۲۵؎ بعض یہود کا عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نبی تو ہیں مگر ہمارے نبی نہیں کہ ہم تو اہل علم ہیں،آپ عرب ناخواندہ لوگوں کے نبی ہیں اس لحاظ سے وہ حضور کو نبی الامیّین کہہ رہا ہے۔(اشعہ،مرقات)معلوم ہوا کہ دجال یہود قوم سے ہے۔
۲۶؎ یعنی جہادوں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم غالب آچکے ہیں اور مدینہ منورہ کے آس پاس کے علاقے انہوں نے فتح کرلیے ہیں اور ان علاقوں کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مطیع ہوچکے،جو واقعات تھے وہ صحیح صحیح بیان کردیئے۔
۲۷؎ سبحان اللہ! دشمن اور بے دین کے منہ سے حضور کی حقانیت کی گواہی نکل رہی ہے،چونکہ ابھی وہ دجال بن کر دنیا کے سامنے آیا نہیں ہے اس لیے یہ سچی بات کہہ رہا ہے جب دجال بن کر آوے گا تب وہ خدا تعالٰی کو بھی نہ مانے گا نبوت تو بہت دور ہے یعنی ان لوگوں کے لیے دین و دنیا کی بہتری اس میں ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرلیں۔شاید یہ ہی سن کر تمیم داری مدینہ منورہ میں آکر مسلمان ہوگئے،بعض صحابہ کو کفار کے ذریعہ ایمان ملا،تمیم داری کو دجال کے ذریعہ،ابوسفیان کو شاہ روم ہرقل کے ذریعہ۔
۲۸؎ غالبًا یہ مسیح بنا ہے سباحہ سے بمعنی زمین میں چلنا پھرنا سیرکرنا،چونکہ یہ مردود تھوڑے دنوں میں تمام زمین میں چکر لگالے گا اس لیے اسے مسیح کہا گیا۔مسیح کے اور بہت معنی ہیں۔دجال بنا ہے دجل سے بمعنی فریب دینا،اس کا نام کچھ اور ہے لقب دجال ہے،اس وقت وہ اپنی حقیقت خود بیان کررہا ہے۔
۲۹؎ یہ ہے اس کافر دجال کے علم کا حال کہ آئندہ ہونے والے واقعات تفصیلًا ایک ایک بتارہا ہے،اپنا مقام اور ساتھ ہی حرمین طیبین کی شان بیان کررہا ہے۔خیال رہے کہ مدینہ منورہ کے نام ایک سو سے زیادہ ہیں ان میں سے بہت نام جذب القلوب شریف کے اول میں لکھے ہیں۔یہاں دجال نے اسے طیبہ کہا،طیبہ کے معنی ہیں پاک و صاف کی ہوئی بستی،چونکہ دجال سے وہ بستی محفوظ رہیگی اس کی خباثت وہاں نہ پہنچ سکے گی اس لیے طیبہ کہا۔خیال ہے کہ دجال کے سواء دیگر کفار و مشرکین و منافقین مدینہ منورہ میں جا تو سکتے ہیں مگر رہ نہیں سکتے زندگی میں یا مرے بعد وہاں سے نکال دیئے جائیں گے،یہ زمین مقدس بھٹی ہے جو لوہے کا میل نکال دیتی ہے مگر دجال وہاں جا بھی نہ سکے گا۔
۳۰؎ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان فرشتوں میں داخل ہوں گے ان کی تشریف آوری زمین پر بند نہ ہوئی،ہاں وحی لانا بند ہوگیا کہ حضور انور کے بعد کوئی نبی نہیں۔خیال رہے کہ دجال یہ سب کچھ جانتے ہوئے حرمین طیبین میں داخلہ کی کوشش کرے گا جیسے شیطان لاحول کا کوڑا جانتے ہوئے بلکہ یہ کوڑا کھاتے ہوئے بھی ہر ایک کے پاس پہنچنے کی کو شش کرتا ہے،مکھیاں مار کھاتے ہوئے بھی ہر جگہ پہنچتی ہیں لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہے تو پھر وہاں جانے کی کوشش کیوں کرے گا۔فطرت نہیں بدلتی یہ اس کی فطری چیز ہوگی،شیطان جانتا ہے کہ میں حضرات انبیاءاولیاءکو بہکا نہیں سکتا"اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیۡنَ" مگر پھر کوشش میں رہتا ہے۔
۳۱؎ حضور انور کا یہ عمل و فرمان انتہائی خوشی سے ہے۔خوشی ایک تو اس کی ہے کہ ہمارے فرمان عالی کی تصدیق ایک غیرمسلم سے ہوئی بلکہ وہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنی۔دوسرے یہ کہ ہمارے مدینہ کی شان عالی یہ ہےاللہ تعالٰی ہم سب کو مدینہ طیبہ کی زیارت نصیب فرمائے۔
۳۲؎ اس فرمان عالی کی بہت شرحیں کی گئی ہیں۔بہترین شرح یہ ہے کہ ما ھو میں ما زائدہ ہے نافیہ نہیں۔مطلب یہ ہے کہ دجال کبھی بحر شام میں مقید رہتاہے اور کبھی بحر یمن کی جیل میں رکھا جاتا ہے،آج کل ان دونوں جیلوں میں نہیں بلکہ مدینہ منورہ سے مشرق جانب میں ہے،یا یہ مطلب ہے کہ وہ شامی یا یمنی جیلوں میں مقید رہتا ہے مگر قریب خروج مدینہ منورہ میں ان طرفوں سے نہ آئے گا بلکہ مشرق کی طرف سے آوے گا۔خیال رہے کہ مدینہ منورہ سے شام جانب شمال ہے اور یمن جانب جنوب اور نجد جانب مشرق لہذا دجال اس زمانہ میں نجد کی طرف سے آئے گا، یہ ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ۔
0 comments:
Post a Comment