فرقہ
واریت کی تعریف:
لفظ ِفرقہ کا معنی گروہ اور جماعت کے ہیں۔ فرقہ کے معنی جماعت یا گروہ کے ہیں. یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ
کرنا/جدا ہونا ہے.دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ کسی
بھی مذہب ، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کا ذیلی
حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔
ان معانی سے یہ بات واضح
ہوتی ہے کہ فرقہ واریت کا مطلب ہے الگ الگ گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جانا۔اور یہ
گروہ بندی نظریاتی ہو یا عملی ہو یا عقلی ہو الغرض فرقہ واریت ہی کہلائے گی۔
فرقہ واریت کی وضاحت:
جب تک یہ بات واضح نہ ہو کہ فرقہ واریت کیا ہے اور اس کی
مذمت کرنا یا کلام کرنا یا اس پر بحث کرنا سب کارِ لاحاصل ہو گا ۔دین اسلام کی
اندر فرقہ واریت کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ جیسا بخاری شریف کی ایک
روایت میں وارد ہے عبد اللہ بن عمر سے مروی ہےغزوہ احزاب کے روز نبی کریم ﷺ نے
منادی فرما دی کہ کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریضہ کے پاس تب بعض لوگوں کو عصر کی نماز راستے میں ہو گئی
تو بعض نے کہا کہ ہم بنی قریضہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھیں گے جبکہ دوسرے
لوگ کہنے لگے کہ ہم تو پڑھ لیں گے ۔ اس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ کے پاس کیا گیا تو
آپ نے کسی ایک کو بھی سرزنش نہ کی۔
اس روایت میں واضح ہے کہ صحابہ کرام کے دو گروہ
نبے ایک نے نماز پڑھ لی دوسرے نے نہ پڑھی اس مسئلے پر اختلاف ہوا لیکن نبی کریم ﷺ
نے دونوں میں سے کسی کو بھی غلط نہ کہا اور نہ ہی سرزنش کی نہ کسی گروہ کو نماز
لوٹانے کا کہا آپ ﷺ کی خاموشی ہی دونوں گروہوں کے درست ہونے کا اشارہ بنی۔ یہاں
اسلام نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے یعنی اس پر سختی نہیں کی کیوں کہ ایک نص کے
ظاہری معنی ہوتے ہیں اور دوسرے مرادی معنی ہوتے ہیں جیسے ظاہری معنی تو یہ تھے کہ
نماز بنو قریضہ کے پاس ہو گی اور مرادی معنی یہ تھے کہ بہت جلد پہنچنا ہے تو اس صورت میں اسلام نے گنجائش رکھی ہے۔ دوسری صورت یہ کہ جس کی دین اسلام نے سخت
مذمت کی ہے اور قرآن مجید نے کئی مقامات
پر اور بےشمار احادیث میں اختلاف اور فرقہ بندی کی مذمت کی ہے اس صورت میں قرآن
مجید کی آیات ذکر کی جا رہی ہیں۔
فرقہ واریت اور قرآن مجید:
قرآن مجید حق اور باطل کو
الگ الگ فریق کہتا ہے اور ارشاد باری تعالی ہے:
پہلی آیت:فَرِيْقًا
هَدٰي وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلٰلَةُ
ۭاِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ
وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ
ترجمہ: بعض لوگوں کو اللہ نے
ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان
کو دوست بنا لیا اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں۔
دوسری آیت: وَكَذٰلِكَ
اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ
حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ فَرِيْقٌ فِي
الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ
ترجمہ: اس طرح ہم نے آپ کی
طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں
کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک
گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔
اس آیت میں ایک گروہ کو جنتی اور
دوسرے کو دوزخی کہا ہے دونوں اپنے اعمال ، نظریات ، عقائد اور اقوال میں ایک دوسرے
سے مختلف ہیں اور یہی اختلاف اور گروہ بندی حرام اور ناقابل برداشت ہے۔
تیسری آیت: وَاَنْزَلْنَآ
اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ
وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا
تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا
مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ
شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ
مَآ اٰتٰىكُمْ
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ اِلَى اللّٰهِ
مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے
اگلی کتابوں کی تصدیق
کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے (١) اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات
میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے (٢) اس حق سے ہٹ کر ان کی
خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے (٣) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ
مقرر کر دی (٤) اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی
امت بنا دیتا لیکن اس
کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے (٥) تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو
تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم
اختلاف کرتے رہتے تھے۔
درج بالا آیات میں لوگوں کی گروہ بندی بیان کی گئی ہے اس میں ایک
گروہ جنتی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت پر ہے اور دوسرا گروہ جس نے اللہ
تعالی کا انکار کیا اور انحراف کیا وہ گرو دوزخی اور گمراہ ہے۔مزید برآں ان آیات
میں دین اسلام کو ماننے اور نا ماننے والے گروہ سے متعلق بات ہے اب ذیل مین ان
آیات کا ذکر کیا جاتاہے جن میں مسلمانوں کو آپس میں تفرقہ ڈالنے سے منع کیا گیا
ہے اور آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی گئی ہے ۔
اسلام میں تفرقہ کی ممانعت:
مسلمانوں کو تفرقہ بازی سے بہت سختی سے
منع کیا گیا ہے اور قرآن مجید کی آیات
اس بات پر شاہد ہیں ۔
پہلی آیت : اِنَّ الَّذِيْنَ
فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ
يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
ترجمہ: بیشک جن لوگوں نے
اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے (١) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں
بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔
اس آیت میں سختی انتہا درجے کی ہے اللہ تعالی نے ارشاد
فرمایا کہ جو لوگ دین میں الگ الگ گرقہ بناتے ہیں ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔یعنی دین کے اصول اور قوانین جو اللہ اور اس کے رسول نے طے کر دیے ان
میں اختلاف یا ردو بدل کی قطعاًکسی کو کوئی اجازت نہیں ہے یا جو مذہب کو اپنے
مذموم نظریات یا مقاصد کے لیے استعمال
کرتے ہیں ان سے اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری آیت: وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ
تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
ترجمہ:
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس
روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا
عذاب ہے۔
تیسری آیت:وَمَا
تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ
ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ
بَيْنَهُمْ
ترجمہ: ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی
باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا
گئی ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
چوتھی آیت:
مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا
مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
ترجمہ: (لوگو!) اللہ تعالٰی
کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔
پانچویں
آیت:مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا
ۭكُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ
ترجمہ: ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی
گروہ گروہ ہوگئے (١) ہرگروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔
درج بالا آیات میں اللہ تعالی نے
مسلمانوں کو تفرقہ بازی سے منع کیا اور سابقہ امتوں کا حوالہ دیا اور فرمایا ان
لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈال دیا علم آ جانے کے بعد
۔
ایک خاص آیت:
وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا
۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ
بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ
النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ
ترجمہ:
اللہ تعالٰی کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو
جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی
مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے
تمہیں بچالیا اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم
ہدایت پاؤ۔
اس
آیت میں اللہ تعالی نے مسلمانون کو وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کی آپس میں تفرقہ
نہ ڈالو، ایک دوسرے سے جدا جدا راہیں اختیار نہ کرو ۔ اور فرمایا کہ یہ اتحاد اور
اتفاق یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے جو اس نے تم پر کی کہ اس سے پہلے لوگ ایک دوسرے کی
گردنیں کاٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کے دست و گریبان تھے اور اس نے لوگوں کے درمیان
الفت ڈال دی اور تمام مسلمان بھائی بھائی بن گئے اور مستقبل کے حوالے سے نصیحت
فرمائی کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالنا اور اس اتحاد اور اتفاق کو برقرار رکھنا اور اگر اس اختلاف میں پڑ گئے اور راہیں جدا
جدا کر لیں تو اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ان کو بھی قرآن مجید نے بیان کیا ہے
ذیل میں اس کے متعلق آیات بیان کی جا رہی ہیں۔
تفرقہ واریت کے نقصانات قرآن مجید کی
روشنی میں:
قرآن
مجید نے تفرقہ واریت اور مسلمانوں کی آپس میں گروہ بندی کے نقصانات کو بیان کیا
ہے فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا
تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ
ترجمہ:
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے
رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور
صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے تفرقہ اور
اختلاف کے نقصانات بیان کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1. بزدل
ہو جاؤ گے
2. ہوا
کھڑ جائے گی (قوت جاتی رہے گی)
اس
آیت کی روشنی میں مزید عمومی نقصانات جو تفرقہ کے ہو سکتے ہیں:
1. ایمان
کی کمزوری
2. کفار
کا خوف اور رعب و دبدبہ
3. عزت
جاتی رہے گی
4. مسلمانوں
کو رعب ختم ہو جائے گا
5. مسلمان
منتشر ہو جائیں گے
6. کفار
کا غلبہ ہو جائے گا
7. دشمن
طاقتور ہو جائے گا
8. اسلام
کا رعب ختم ہو جائے گا
الغرض بے شمار نقصانات ہیں جن کا آجکل
امت مسلمہ کو سامنا ہے اور آج پوری دنیا میں ہر کہیں مسلمان ہی ذلیل و رسوا ہو
رہے ہیں اور یہ سب کا سب تفرقہ بازی کا ہی کیا دھرا ہے آج بھی اگر مسلمان متحد ہ
جائیں اور اللہ کی رسی مضباطی سے تھام لیں تو تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا
سکتی ہے اور مسلمانوں کے عظمت رفتہ بحال ہو سکتی ہے ۔
فرقہ واریت سے
نجات کی چند ایک تجاویز:
1.
عقائد و اعمال کے مشترک
پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا
خاتمہ کیا جائے۔
2.
متنازعہ اور تنقیدی کی
بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔
3.
حقیقی رواداری کا عملی
مظاہرہ کیا جائے اور عدمِ اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔
4.
دینی تعلیم کے لئے
مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں
کا ازالہ ہو۔
5.
علماء کے لئے جدید عصری
تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔
6.
تہذیبِ اخلاق کے لئے
مؤثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔
7.
منافقانہ اور خفیہ فرقہ
پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
8.
تمام مکاتبِ فکر کے
نمائندہ علماء پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔
9.
ہنگامی نزاعات کے حل کے
لئے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔
10.
مذہبی سطح پر منفی اور
تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
درج بالا عملی اقدامات
سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
گر ہم فرقہ واریت کی
لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت،
اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد
ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب
دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج
فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔